Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

مگرمچھ کے دلچسپ انکشافات (ڈاکٹر محمد یعقوب)

ماہنامہ عبقری - جنوری 2010ء

صاف بات ہے کہ پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کرنا گویا اپنی موت کو خود دعوت دینا ہے لیکن سیانوں نے کہا ہے کہ خشکی پہ رہے یا پانی میں مگر مچھ کے مکر سے بچ کے رہیے۔ مگر مچھ افریقہ‘ آسٹریلیا‘ ویسٹ انڈیز‘ ہندوستان اور پاکستان کے سوا دنیا کے اور کسی حصے میں نہیں ملتا۔ پانی میں رہنے والے جانوروں میں سے دریائی گھوڑے (ہپو) کو چھوڑ کر مگر مچھ سب سے زیادہ مکروہ‘ بد ہئیت اور بد وضع جانور ہے۔ نہ اس کی جلد میں کوئی جاذبیت ہے نہ اس کے جسمانی تناسب میں کوئی ترتیب۔ ایک شکاری کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ اس نے مگر مچھ کا ایک بچہ سدھانے کی ناکام کوشش کی۔ ابھی یہ بچہ مشکل سے ایک فٹ کا بھی نہ ہوا ہو گا کہ اپنے پنجرے پر منہ چلانے لگا اور اس کے دانتوں سے لوہے کی سلاخوں پر گہری خراشیں پڑ گئیں۔ قدرت نے رینگنے والے جانوروں کا دل کچھ اس انداز کا بنایا ہے کہ جسم کا سارا خون صاف نہیں کر سکتا بلکہ تھوڑا تھوڑا اور پھیپھڑوں میں بھیج کر معطر کرتا رہتا ہے اور باقی کا غلیظ لہو ویسے ہی جسم میں گردش کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رینگے والے جانور کاہل اور سست ہوتے ہیں۔ جہاں قدرت نے مگر مچھ کو سست روی اور کاہلی عطا کی ہے‘ وہاں اس کیلئے جان بچانے کو مستقل ایک چوکیدار بھی مقرر کر دیا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے ‘ کبوتر کی جسامت کا ایک سفید پرندہ زِک زیک ہمیشہ مگر مچھ کے سر پر اچھلتا پھدکتا رہتا ہے۔ مگر مجھ اس پرندے کی دست درازیوں بلکہ پادرازیوں سے پریشان نہیں ہوتا۔ اس پرندے کی خوبی یا خرابی یہ ہے کہ جونہی کسی کو مگر مچھ کی طرف بڑھتے دیکھتا ہے‘ اونچے اونچے ” زک زیک ! زک زیک! کی رٹ لگا دیتا ہے اور اپنے پروں کو مگر مچھ کے منہ اور آنکھوں پر یوں مارتا ہے کہ وہ بیدار ہو کر پانی میں پھسل جاتا ہے۔ زک زیک اپنے دوست کو بچا کر بڑی شان اور رعونت سے ریت پر پھدکتا ہے اور پھر اسی آواز میں شکاری کی ہنسی اڑا کر اوپر ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ چھوٹی بڑی مچھلیوں اور دیگر دریائی جانوروں کے علاوہ مگر مچھ گائے ‘ سانڈاور گھورے کا شکار بھی کرتا ہے۔ دریائے برہم پتر کے گرد و نواح میں بسنے والوں کا کہنا ہے کہ مون سون کی رت میں مگر مچھ بڑے شوق سے شکار کرنے لگتا ہے۔ اس موذی جانور سے بچنے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ کسی طرح اس کی دہکتی ہوئی آنکھوں کو پھوڑ دیا جائے۔ ایک بنگالی ماہی گیر نے کم گہرے پانی میں کھڑے ہو کر مچھلیوں پر جال پھینکا تو اسے ٹخنوں کے قریب کوئی سرسراتی ہوئی سی چیز محسوس ہوئی۔ پیشتر اس کے کہ اسے اس بلا کا پتہ چلتا‘ اس کی پوری پنڈلی مگر مچھ کے جبڑے میں آچکی تھی۔ ماہی گیر زندگی اور موت کے درمیان تڑپتا ہوا مگر مچھ کے سر پر گرا اور جلدی سے اپنے دونوں انگوٹھے اس کی آنکھوں میں ٹھونس دیئے۔ مگر مچھ نے بیکل ہو کر ماہی گیر کی ٹانگ چھوڑ دی‘ لیکن گھوم کر اس زور سے دم ماری کہ ماہی گیر کا کولہا ٹوٹ گیا۔ اس مخلوق کے بارے میں پاکستان اور ہندوستان میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اگر کوئی آدمی مادر زاد برہنہ پانی میں اتر جائے تو مگر مچھ اس پر حملہ نہیں کرتا‘ بشرطیکہ وہ آدمی کسی قسم کی حرکت نہ کرے مگر یہ خیال جنتر منتر کی حد تک درست ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں۔ آدمی ننگا ہو یا ڈنر سوٹ میں ملبوس ‘ مگرمچھ اس پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتا۔ انسان نے تقریباً ہر جانور کو سدھانے کی کوشش کی ہے لیکن مگر مچھ پر اس کا زور نہیں چلا۔ میں نے میلان کے ایک سرکس ”چرکوتونی“ میں مگر مچھوں کا کھیل دیکھا ہے لیکن اسے کھیل نہیں کہا جا سکتا مگر مچھوں کی نمائش کہنا پڑتا ہے۔ چھ مگر مچھ سرکس کے اکھاڑے میں لائے گئے ۔ رنگ ماسٹر برہمنوں کا لباس پہنے قشقہ کھینچے ان کے سامنے آکھڑا ہوا۔ مگر مچھ اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوشش کرتے تھے اور وہ ”بزور سحر“ یا مسمریزم کے زور سے روکنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہاتھ ہوا میں بلند کر کے وہ رام رام پکارتا۔ کوئی مگر مچھ تھم جاتا‘ کوئی اس کے پہلو سے نکل کر اکھاڑے کا احاطہ عبور کرنے کی کوشش کرتا ۔ سرکس کے ملازم انہیں لاٹھیوں سے ہانک کر پھر بیچ میں لے آتے۔ بنگال سفرینا کے ایک کپتان نے ایک مگرمچھ پالا تھا۔ وہ سارا دن بنگلے کے برآمدے میں لیٹا رہتا اور کپتان صاحب کی آواز پر یوں لپکتا جیسے پالتو کتا مالک کی آواز پر‘ اس مگر مچھ کو گھر بھر میں صرف کپتان صاحب کی بلی سے پیار تھا۔ سردیوں کی راتوںکو وہ آتش دان کے سامنے قالین پر دراز ہو جاتا اور بلی کے جسم پر اپنی تھوتھنی ٹکا کر سوتا۔ جب تک بلی نہ آتی ‘بیچارہ گھڑیال سو نہ سکتا۔ ایک مرتبہ کپتان صاحب کو دورے پر جانا پڑا۔ اردلی نے ان کی غیر موجودگی میں نہ تو ڈرائنگ روم کا درواز کھولا اور نہ آتش دان ہی میں آگ روشن کی۔ پوری ایک رات اور ایک دن برآمدے میں گزارنے کے بعد مگر مچھ سردی کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ کپتان صاحب ابھی تک اس خیال کے حامی ہیں کہ مگر مچھ کو سردی نے نہیں مارا بلکہ بلی کی مفارقت نے مارا ہے جو آتش دان روشن نہ ہونے کی وجہ سے باورچی خانے میں گھس کر سوئی تھی۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 258 reviews.